Add parallel Print Page Options

یسوع کا پانچ ہزار سے زائد افراد کو دعوت کرنا

اسکے بعد یسوع گلیل کی جھیل کے اس پار پہونچے۔ کئی لوگ یسوع کے ساتھ ہو لئے اور انہوں نے یسوع کے معجزوں کو دیکھا اور بیماروں کو شفاء بخشتے دیکھا۔ یسوع اوپر پہاڑی پر گئے وہ وہاں اپنے شاگردوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔ یہودیوں کی فسح کی تقریب کا دن قریب تھا۔

یسوع نے دیکھا کہ کئی لوگ ان کی جانب آ رہے ہیں۔ یسوع نے فلپ سے کہا، “ہم اتنے لوگوں کے لئے کہاں سے روٹی خرید سکتے ہیں تا کہ سب کھا سکیں؟” یسوع نے فلپ سے یہ بات اسکو آزمانے کے لئے کہی یسوع کو پہلے ہی معلوم تھا کہ وہ کیا ترکیب سوچ رکھے ہیں۔

فلپ نے جواب دیا ، “ہم سب کو ایک مہینہ تک کچھ کام کرنا چاہئے تا کہ ہر ایک کو کھا نے کے لئے روٹی حاصل ہو سکے اور انہیں کم سے کم کچھ غذا میسّر ہو۔”

دوسرا ساتھی اندر یاس تھا جو شمعون پطرس کا بھا ئی تھا اندریاس نے کہا۔ ، “یہاں ایک لڑکا ہے جس کے پاس بارلی کی روٹی کے پانچ ٹکڑے اور دو مچھلیاں ہیں لیکن یہ ا ن سب کے لئے کا فی نہیں ہوگا۔”

10 یسوع نے کہا ، “لوگوں سے کہو کہ بیٹھ جائیں۔” وہاں اس مقام پر کافی گھاس تھی وہاں ۵۰۰۰ آدمی تھے اور وہ سب بیٹھ گئے۔ 11 تب یسوع نے روٹی کے ٹکڑے لئے اور خدا کا شکر ادا کیا اور جو لوگ بیٹھے ہو ئے تھے ان کو دیا اسی طرح مچھلی بھی دی اس نے انکو جتنا چاہئے تھا اتنا دیا۔

12 سب لوگ سیر ہو کر کھا چکے جب وہ لوگ کھا چکے تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا ، “بچے ہو ئے ٹکڑوں کو جمع کرو اور کچھ بھی ضائع نہ کرو۔” 13 اسطرح شاگردوں نے تمام ٹکڑوں کو جمع کیا اور ان لوگوں نے بارلی کی روٹی کے پانچ ٹکڑوں سے ہی کھانا شروع کیا اور انکے ساتھیوں نے تقریباً بارہ ٹوکریوں میں ٹکڑے جمع کئے۔

14 لوگوں نے یہ معجزہ دیکھا جو یسوع نے انہیں بتا یا لوگوں نے کہا ، “یہی نبی ہے جو عنقریب دنیا میں آنے والے ہیں۔”

15 پس یسوع یہ بات معلوم کرکے کہ لوگ اسے آکر بادشاہ بنانا چاہتے ہیں اس لئے وہ دوبارہ تنہا پہاڑی کی طرف چلے گئے۔

یسوع کا پانی پر چلنا

16 اس رات یسوع کے شاگرد گلیل جھیل کی طرف گئے۔ 17 اس وقت اندھیرا ہو چکا تھا اور یسوع انکے پاس اب تک واپس نہیں آئے تھے۔اور انکے شاگرد ایک کشتی پر سوار ہو کر جھیل کے پاس کفر نحوم جانے لگے۔ 18 اس وقت ہوا بہت تیز چل رہی تھی۔اور جھیل میں زور دار لہریں اٹھ رہیں تھیں۔ 19 وہ کشتی میں تین یا چار میل گئے تب انہوں نے دیکھا کہ یسوع پا نی پر چل رہے تھے اور کشتی کی طرف آرہے تھے اور یہ دیکھ کر انکے شاگرد ڈر گئے۔ 20 لیکن یسوع نے ان سے کہا ، “ڈرو مت یہ میں ہوں۔” 21 اتنا سن کر انکے ساتھی بہت خوش ہو ئے اور یسوع کو کشتی میں لے لیا اور کشتی جلد ہی واپس کنا رے آگئی جہاں وہ جا نا چاہتے تھے۔

لوگوں کا یسوع کو ڈھوڈنا

22 دوسرے دن لوگ جھیل کے پار جو لوگ ٹھہرے ہو ئے تھے انہیں معلوم تھا کہ یسوع کشتی میں اپنے شاگردوں کے ساتھ نہیں گئے بلکہ صرف انکے شاگرد ہی کشتی میں گئے تھے اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ صرف وہی کشتی وہاں تھی۔ 23 لیکن جب تبریاس سے چند کشتیاں آئیں اور آکر وہیں ٹھہریں جہاں ان لوگوں نے گزشتہ دن روٹی کھا ئی تھی اور جہاں خدا وند نے شکر ادا کیا تھا۔ 24 جب لوگوں نے دیکھا کہ یسوع اور انکے ساتھی اس وقت وہاں نہیں تھے، تو لوگ کشتی میں سوار ہو کر کفر نحوم کی جانب روانہ ہو ئے تا کہ یسوع سے ملیں۔

یسوع حیات کی روٹی

25 لوگوں نے دیکھا کہ یسوع جھیل کے دوسری طرف ہے ان لوگوں نے یسوع سے کہا ، “اے استاد! آپ یہاں کب آئے ؟”

26 یسوع نے جواب دیا ، “تم لوگ مجھے کیوں تلاش کر رہے ہو۔ کیا تم اسلئے مجھے تلاش کر رہے ہو کہ معجزے دکھا تا پھروں اور اپنی قوت کا مظاہرہ کروں ہر گزنہیں! میں تم سے سچ کہتا ہوں تم مجھے اس لئے تلاش کر رہے ہو تم لوگ پیٹ بھر روٹی کھا کر تسّلی کرو۔ 27 دنیا کی غذائیں خراب اور تباہ ہو جانے والی ہیں۔لہذا ایسی غذا کو مت حاصل کرو بلکہ ایسی غذا کو تلاش کرو جو ہمیشہ اچھی ہو اور تمہیں ابدی زندگی دے سکے ابن آدم ہی تم کو ایسی غذا دیگا خدا جو باپ ہے وہ یہ ظاہر کر چکا ہے کہ وہ ابن آدم کے ساتھ ہے۔”

28 لوگوں نے یسوع سے پوچھا ، “ہمیں کیا کرنا چاہئے تا کہ خدا کا کام جو وہ چاہتا ہے کر سکیں ؟”

29 یسوع نے کہا ، “خدا تم سے یہی چاہتا ہے کہ اس نے جس کو بھیجا ہے اس پر ایمان لاؤ۔”

30 لوگوں نے کہا ، “تم کیا معجزہ دکھا ؤگے تا کہ یہ ثا بت ہو جا ئے کہ تم ہی وہ ہو جسے خدا نے بھیجا ہے۔ ایسا کو ئی معجزہ تم دکھا ؤ تب ہی ہم تمہا را یقین کریں گے کہ تم کیا کرو گے۔ 31 ہما رے آباء واجداد کو خدا نے ریگستا ن میں منّ ( کھا نے کی نعمتیں) عطا کی تھی اور یہ صحیفوں میں لکھا ہے اور خدا انہیں کھا نے کے لئے جنت سے روٹی بھیجوا تا تھا۔” [a]

32 یسوع نے کہا، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایک موسیٰ ہی نہیں تھے جو تمہا رے لوگوں کے لئے آسمان سے روٹی لا یا کر تے تھے در اصل وہ میرا باپ ہے جو تم لوگوں کو آسمان سے روٹی دیتا ہے۔ 33 خدا کی روٹی کیا ہے؟ جو روٹی خدا دیتا ہے وہ وہی ہے جو آسمان سے آکر دنیا کو اپنی زندگی دیتی ہے۔”

34 لوگوں نے کہا، “جناب تو یہ روٹی ہمیشہ کے لئے دلائیں۔”

35 تب یسوع نے کہا، “میں ہی وہ روٹی ہوں جو زندگی دیتی ہے۔جو بھی میرے پا س آتا ہے۔ وہ کبھی بھو کا نہیں رہیگا۔ اور جو مجھ پر ایمان لا یا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ 36 میں تم سے بھی یہ پہلے ہی کہہ چکا ہوں تم مجھے دیکھ چکے ہو لیکن تم کو اب تک یقین نہیں آرہا ہے۔ 37 میرا باپ میرے لوگوں کے پا س بھیجتا ہے ہر ایک شخص میرے پا س آتا ہے جو بھی میرے پاس آتا ہے میں اسے قبول کرتا ہوں۔ 38 میں آسمان سے آیا ہوں اور اپنی مرضی پو ری کر نے کے لئے نہیں آیا بلکہ خدا کی مرضی کے مطا بق کر نے کے لئے آیاہوں۔ 39 مجھے ان لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں کھونا چاہئے جن کو خدا نے میرے پاس بھیجا ہے اور انکومیں آخرت کے دن زندہ اٹھا ؤں گا اور یہی کچھ وہ مجھ سے چا ہتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ 40 ہر آدمی جو بیٹے کو دیکھتا ہے اور اس پر ایمان لا تا ہے اس کو ابدی زندگی حا صل ہو تی ہے اوراسی آدمی کو میں آخرت کے دن زندہ اٹھا ؤں گا ، “اور یہی میرا باپ چاہتاہے۔

41 یہودیوں نے یسوع کے متعلق شکایت کر نی شروع کر دی کیوں کہ اس نے کہا ، “تھا میں روٹی ہوں جو خدا کی طرف سے آسمان سے آیاہوں۔” 42 یہودیوں نے کہا ، “یہ یسوع ہے ہم اس کے باپ اور ماں کو اچھی طرح جا نتے ہیں۔یسوع تو یوسف کا بیٹا ہے اس لئے وہ اب ایسا کس طرح کہہ سکتا ہے کہ میں آسمان سے آیا ہوں؟”

43 لیکن یسوع نے کہا، “ایک دوسرے سے شکا یت کر نی بند کرو۔ 44 باپ وہی ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور لوگوں کو میرے پاس لاتا ہے جنہیں آ خرت کے دن اٹھا ؤں گا اگر باپ کسی کو میرے پا س نہ لا ئے تو ایسا آدمی میرے پاس نہیں آ سکتا۔ 45 یہ بات نبیوں نے لکھی ہے، “خدا تمام لوگوں کو تعلیم دیتاہے اور لوگ جوباپ سے سن کر سیکھتے ہیں وہ میرے پاس آتے ہیں۔” [b] 46 میرے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ ہر کسی نے باپ کو نہیں دیکھا ہے سوائے اس آدمی کے جو باپ کی طرف سے آیا ہے۔”

47 “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو شخص مجھ پر ایمان لا تا ہے وہی ابدی زندگی پا سکتا ہے۔” 48 میں وہ روٹی ہوں جو حیات بخشتی ہے۔ 49 تمہا رے آبا ء و اجدادنے ریگستان میں منّ کھایا لیکن وہ فوت ہو گئے۔ 50 میں وہ روٹی ہوں جو آسمان سے آئی ہے اور جو یہ روٹی کھا ئیگا وہ کبھی نہیں مریگا۔ 51 میں حیات کی روٹی ہوں جو آسما ن سے آئی ہے اور جس نے اس کو استعمال کیا اس نے ہمیشہ کی زندگی پا ئی ہے یہ روٹی جو میں دیتا ہوں میرا جسم ہے میں یہ جسم دوں گا تا کہ لو گ اس دنیا میں زندگی پا سکیں۔”

52 اس پر یہودیوں نے آپس میں بحث و مباحشہ شروع کیا اور کہا، “یہ شخص کس طرح اپنا جسم ہمیں کھا نے کو دیگا ؟”

53 یسوع نے کہا ، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تمہیں ابن آدم کے جسم کو کھا نا چا ہئے اور اسکے خون کو پینا چاہئے۔اگر تم ایسا نہیں کر تے ہو تو تمہیں حقیقی زندگی نصیب نہیں ہو گی۔ 54 جس نے میرے جسم کو غذا بنائی اور خون کو پیا اس نے لا فا نی زندگی پا ئی اور ایسے آدمی کومیں آخرت کے دن اٹھا ؤں گا۔ 55 میرا جسم اور خون سچی مشروب ہے۔ 56 اور جو میرا جسم کھا تا ہے اور خون پیتا ہے ایسا آدمی میں ہوں اور مجھ میں وہ رہتا ہے۔

57 باپ نے مجھے بھیجا اور میں باپ کی وجہ سے رہتا ہوں۔ اسی طرح جو مجھے غذا کے طور پر استعمال کریں گے میری وجہ سے وہ رہیں گے۔ 58 میں اس روٹی کی ما نند نہیں ہوں جو ہما رے آباء واجداد نے ریگستان میں کھا ئی تھی حا لانکہ وہ کھا تے تھے مگر اوروں کی طرح انہیں بھی موت آئی۔ میں وہ روٹی ہو ں جو آسمان سے آ ئی ہے اور جس نے اس روٹی کو کھایا کیا اس نے حقیقی زندگی پائی؟”

59 یسوع نے یہ تمام باتیں اس وقت کہیں جب کفر نحوم میں یہودی عبادت گاہ میں لوگوں کو تعلیم دے رہے تھے۔

بہت سے شاگردوں کا یسوع کو چھوڑ دینا

60 کئی شاگردوں نے یسوع کی تعلیمات کو سنا اور سن کر کہا ، “یہ تعلیم تو بہت مشکل ہے اس کو کون قبول کریگا ؟۔”

61 یسوع اچھی طرح جان گیا کہ یہ شاگرد اس کے متعلق شکایت کر رہے ہیں۔ تب یسوع نے کہا کیا تم میری تعلیمات کی وجہ سے پریشان ہو؟ 62 اگر تم ابن آدم کو اوپر جاتے دیکھو گے جہاں وہ پہلے تھا توکیا ہوگا ؟ 63 یہ جسم کچھ بھی نہیں حا صل کر سکتا۔یہ تو روح ہے۔ جو انسان کو زندگی بخشتی ہے۔اور یہی باتیں جو میں نے کہی ہیں وہ روح کی ہیں جو تمہیں زندگی دیتی ہیں۔ 64 لیکن تم میں سے کچھ لوگ ان باتوں کا یقین نہیں کروگے۔”کیوں کہ یسوع نے جان لیا کہ کون یقین نہیں کر رہا ہے۔اور اس بات کو وہ شروع سے ہی جان گیاتھا کہ کون انہیں دھو کا دیگا۔ 65 یسوع نے کہا ، “جس آدمی کو با پ نہ بھیجے وہ آدمی میرے پا س نہیں آ سکتا۔”

66 جب یسوع نے یہ باتیں کہیں اس کے بہت سے شاگردوں نے اسے چھوڑ دیا۔وہ یسوع کی باتوں پرعمل کرنا چھوڑ دیا۔

67 یسوع نے اپنے بارہ رسولوں سے یہ بھی پوچھا ، “کیا تم بھی مجھے چھوڑنا چاہتے ہو؟”

68 سائمن پطرس نے یسوع سے کہا، ، “خدا وند ہم کہاں جا سکتے ہیں آپ کے پاس کلا م ہے جو ہمیں ہمیشہ کی زند گی دے سکتا ہے۔ 69 ہم کو آپ پر عقیدہ ہے ہم جانتے ہیں کہ آپ ہی وہ مقدس ہستی ہیں جو خدا کی طرف سے ہیں۔”

70 تب یسوع نے کہا ، “میں تم بارہ کو منتخب کرتا ہوں لیکن تم میں ایک شیطان ہے۔” 71 یہ بات یسوع نے یہوداہ کے متعلق کہی تھی جو سائمن اسکریوتی کا بیٹا تھا۔ یہوداہ بارہ مریدوں میں سے ایک تھا لیکن بعد میں یسوع کا مخا لف ہو گیا۔

Footnotes

  1. یوحنا 6:31 اِقتِباس زبور ۲۴:۷۸
  2. یوحنا 6:45 اِقتِباس یسعیاہ ۱۳:۵۴

Jesus Feeds the Five Thousand(A)

Some time after this, Jesus crossed to the far shore of the Sea of Galilee (that is, the Sea of Tiberias), and a great crowd of people followed him because they saw the signs(B) he had performed by healing the sick. Then Jesus went up on a mountainside(C) and sat down with his disciples. The Jewish Passover Festival(D) was near.

When Jesus looked up and saw a great crowd coming toward him, he said to Philip,(E) “Where shall we buy bread for these people to eat?” He asked this only to test him, for he already had in mind what he was going to do.

Philip answered him, “It would take more than half a year’s wages[a] to buy enough bread for each one to have a bite!”

Another of his disciples, Andrew, Simon Peter’s brother,(F) spoke up, “Here is a boy with five small barley loaves and two small fish, but how far will they go among so many?”(G)

10 Jesus said, “Have the people sit down.” There was plenty of grass in that place, and they sat down (about five thousand men were there). 11 Jesus then took the loaves, gave thanks,(H) and distributed to those who were seated as much as they wanted. He did the same with the fish.

12 When they had all had enough to eat, he said to his disciples, “Gather the pieces that are left over. Let nothing be wasted.” 13 So they gathered them and filled twelve baskets with the pieces of the five barley loaves left over by those who had eaten.

14 After the people saw the sign(I) Jesus performed, they began to say, “Surely this is the Prophet who is to come into the world.”(J) 15 Jesus, knowing that they intended to come and make him king(K) by force, withdrew again to a mountain by himself.(L)

Jesus Walks on the Water(M)

16 When evening came, his disciples went down to the lake, 17 where they got into a boat and set off across the lake for Capernaum. By now it was dark, and Jesus had not yet joined them. 18 A strong wind was blowing and the waters grew rough. 19 When they had rowed about three or four miles,[b] they saw Jesus approaching the boat, walking on the water;(N) and they were frightened. 20 But he said to them, “It is I; don’t be afraid.”(O) 21 Then they were willing to take him into the boat, and immediately the boat reached the shore where they were heading.

22 The next day the crowd that had stayed on the opposite shore of the lake(P) realized that only one boat had been there, and that Jesus had not entered it with his disciples, but that they had gone away alone.(Q) 23 Then some boats from Tiberias(R) landed near the place where the people had eaten the bread after the Lord had given thanks.(S) 24 Once the crowd realized that neither Jesus nor his disciples were there, they got into the boats and went to Capernaum in search of Jesus.

Jesus the Bread of Life

25 When they found him on the other side of the lake, they asked him, “Rabbi,(T) when did you get here?”

26 Jesus answered, “Very truly I tell you, you are looking for me,(U) not because you saw the signs(V) I performed but because you ate the loaves and had your fill. 27 Do not work for food that spoils, but for food that endures(W) to eternal life,(X) which the Son of Man(Y) will give you. For on him God the Father has placed his seal(Z) of approval.”

28 Then they asked him, “What must we do to do the works God requires?”

29 Jesus answered, “The work of God is this: to believe(AA) in the one he has sent.”(AB)

30 So they asked him, “What sign(AC) then will you give that we may see it and believe you?(AD) What will you do? 31 Our ancestors ate the manna(AE) in the wilderness; as it is written: ‘He gave them bread from heaven to eat.’[c](AF)

32 Jesus said to them, “Very truly I tell you, it is not Moses who has given you the bread from heaven, but it is my Father who gives you the true bread from heaven. 33 For the bread of God is the bread that comes down from heaven(AG) and gives life to the world.”

34 “Sir,” they said, “always give us this bread.”(AH)

35 Then Jesus declared, “I am(AI) the bread of life.(AJ) Whoever comes to me will never go hungry, and whoever believes(AK) in me will never be thirsty.(AL) 36 But as I told you, you have seen me and still you do not believe. 37 All those the Father gives me(AM) will come to me, and whoever comes to me I will never drive away. 38 For I have come down from heaven(AN) not to do my will but to do the will(AO) of him who sent me.(AP) 39 And this is the will of him who sent me, that I shall lose none of all those he has given me,(AQ) but raise them up at the last day.(AR) 40 For my Father’s will is that everyone who looks to the Son(AS) and believes in him shall have eternal life,(AT) and I will raise them up at the last day.”

41 At this the Jews there began to grumble about him because he said, “I am the bread that came down from heaven.” 42 They said, “Is this not Jesus, the son of Joseph,(AU) whose father and mother we know?(AV) How can he now say, ‘I came down from heaven’?”(AW)

43 “Stop grumbling among yourselves,” Jesus answered. 44 “No one can come to me unless the Father who sent me draws them,(AX) and I will raise them up at the last day. 45 It is written in the Prophets: ‘They will all be taught by God.’[d](AY) Everyone who has heard the Father and learned from him comes to me. 46 No one has seen the Father except the one who is from God;(AZ) only he has seen the Father. 47 Very truly I tell you, the one who believes has eternal life.(BA) 48 I am the bread of life.(BB) 49 Your ancestors ate the manna in the wilderness, yet they died.(BC) 50 But here is the bread that comes down from heaven,(BD) which anyone may eat and not die. 51 I am the living bread(BE) that came down from heaven.(BF) Whoever eats this bread will live forever. This bread is my flesh, which I will give for the life of the world.”(BG)

52 Then the Jews(BH) began to argue sharply among themselves,(BI) “How can this man give us his flesh to eat?”

53 Jesus said to them, “Very truly I tell you, unless you eat the flesh(BJ) of the Son of Man(BK) and drink his blood,(BL) you have no life in you. 54 Whoever eats my flesh and drinks my blood has eternal life, and I will raise them up at the last day.(BM) 55 For my flesh is real food and my blood is real drink. 56 Whoever eats my flesh and drinks my blood remains in me, and I in them.(BN) 57 Just as the living Father sent me(BO) and I live because of the Father, so the one who feeds on me will live because of me. 58 This is the bread that came down from heaven. Your ancestors ate manna and died, but whoever feeds on this bread will live forever.”(BP) 59 He said this while teaching in the synagogue in Capernaum.

Many Disciples Desert Jesus

60 On hearing it, many of his disciples(BQ) said, “This is a hard teaching. Who can accept it?”(BR)

61 Aware that his disciples were grumbling about this, Jesus said to them, “Does this offend you?(BS) 62 Then what if you see the Son of Man(BT) ascend to where he was before!(BU) 63 The Spirit gives life;(BV) the flesh counts for nothing. The words I have spoken to you—they are full of the Spirit[e] and life. 64 Yet there are some of you who do not believe.” For Jesus had known(BW) from the beginning which of them did not believe and who would betray him.(BX) 65 He went on to say, “This is why I told you that no one can come to me unless the Father has enabled them.”(BY)

66 From this time many of his disciples(BZ) turned back and no longer followed him.

67 “You do not want to leave too, do you?” Jesus asked the Twelve.(CA)

68 Simon Peter answered him,(CB) “Lord, to whom shall we go? You have the words of eternal life.(CC) 69 We have come to believe and to know that you are the Holy One of God.”(CD)

70 Then Jesus replied, “Have I not chosen you,(CE) the Twelve? Yet one of you is a devil!”(CF) 71 (He meant Judas, the son of Simon Iscariot,(CG) who, though one of the Twelve, was later to betray him.)(CH)

Footnotes

  1. John 6:7 Greek take two hundred denarii
  2. John 6:19 Or about 5 or 6 kilometers
  3. John 6:31 Exodus 16:4; Neh. 9:15; Psalm 78:24,25
  4. John 6:45 Isaiah 54:13
  5. John 6:63 Or are Spirit; or are spirit