Add parallel Print Page Options

پولس کی قیصر سے اپیل

25 فیستس صوبہ دار بنا اور تین دن بعد وہ قیصر یہ سے یروشلم آیا۔ سردار کاہنوں اور یہودی قائدین نے پو لس کے خلاف الزا مات لگا کر انہیں فیستس کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے فیستس سے کہا کہ ان کے لئے کچھ کرے اور پو لس کو یروشلم بھیجے اور انہوں نے منصوبہ بنا یا کہ پو لس کو راستے میں مار ڈا لیں۔ لیکن فیستس نے جواب دیا، “نہیں پو لس کو قیصر یہ میں ہی رکھا جا ئیگا۔ میں خود جلد ہی قیصریہ جاؤنگا۔ تم میں سے چند قائدین کو میرے ساتھ چلنا ہو گا اگر اس نے واقعی کچھ غلطی کی ہے تو اسکے خلاف قیصریہ میں الزام رکھ سکتے ہیں۔”

فیستس یروشلم میں مزید آٹھ یا دس دن ٹھہرا رہا۔ تب وہ قیصریہ کے لئے روا نہ ہوا اور دوسرے دن اس نے سپاہیوں سے کہا کہ پو لس کو اس کے سامنے پیش کرے۔ تب اس نے اپنی جگہ لی وہ فیصلہ کی نششت پر تھا۔ جب پو لس عدالت میں داخل ہوا تو وہ یہودی جو یروشلم سے آئے تھے اس کے اطراف آکر کھڑے ہو گئے اور اس پر بہت سارے سخت الزا مات لگا نے لگے مگر ان کو ثابت نہ کر سکے۔ پو لس نے اپنی صفائی میں کہا، “میں نے کو ئی جرم یہودی شریعت کے یا ہیکل کے خلاف یا قیصر یہ کے خلاف نہیں کیا ہے۔”

لیکن فیستس نے یہودیوں کو خوش کر نے کی غرض سے پو لس سے کہا، “کیا تم یروشلم جانا چاہتے ہو۔ تمہارے مقدمہ کا فیصلہ وہاں میرے سامنے ہو؟”

10 پو لس نے کہا، “میں قیصر یہ کی عدالت میں کھڑا ہوں اور صرف یہیں میرے مقدمہ کا فیصلہ ہو نا چاہئے۔ میں نے یہودیوں کے ساتھ کو ئی برائی نہیں کی اور اس سچا ئی کو تو بہتر جانتا ہے۔ 11 اگر میں نے کو ئی جرم کیا ہے اور شریعت کہتی ہے کہ اسکی سزا موت ہے تو میں موت کی سزا قبول کر نے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن اگر انکے الزامات ثابت نہ ہو سکے تب کو ئی بھی مجھے ان یہودیوں کے حوالے نہیں کر سکتا۔ میں قیصر سے اپیل کر تا ہوں کہ وہی میرا مقدمہ کا فیصلہ کرے۔”

12 فیستس نے اس بارے میں اپنے مشیروں سے گفتگوکی تب اس نے کہا چونکہ تم نے “قیصر سے اپیل کی ہے تو قیصر ہی کے پاس جائیگا۔”

فیستس بادشاہ کا اگرپا سے پو لس کے بارے میں پو چھنا

13 اور کچھ دن بعد بادشاہ اگرپا اور بر نیکے قیصریہ آئے اور فیستس سے ملاقات کی۔ 14 وہ وہاں بہت دن ٹھہرے رہے فیستس نے پو لس کے مقدمہ کے تعلق سے بادشاہ سے کہا “فیستس نے کہا ایک آدمی کو قید میں چھو ڑا ہے۔ 15 جب میں یروشلم گیا تو سردار کاہنوں اور بزرگ یہودی قائدین نے اس شخص کے خلاف الزامات لگا ئے اور مجھ سے اسکی موت کے حکم کی درخواست کی۔ 16 لیکن میں نے انکو جواب دیا، “جب کسی آدمی پر کسی خطا کا الزام لگا یا جائے تو رومی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ایسے آدمی کو دوسروں کے حوالے کرے۔ سب سے پہلے تو جو آدمی ملزم ہے اس کو چاہئے کہ الزامات کا سامنا لوگوں سے کرے اور اس آدمی کو اپنی دفاع میں الزامات کے خلاف عذر خواہی کا موقع ملنا چاہئے۔

17 اس لئے جب یہ یہودی قیصریہ کی عدالت میں مقدمہ پیش کر نے کے لئے آئے تو میں نے وقت ضائع کئے بغیر فیصلہ کی نششت پر بیٹھ کر اس آدمی کو لا نے کا حکم دیا۔ 18 جب یہودی بطور مدعی کھڑے ہو گئے تو جن برائیوں کا مجھے گمان تھا ان میں سے انہوں نے کسی کا الزام اس پر نہ لگا یا۔ 19 بلکہ وہ ان موضوعات پر جو انکے دین اور یسوع نامی شخص کے بارے میں بحث کر رہے تھے۔ جو مر چکا ہے۔ لیکن پو لس نے کہا وہ زندہ ہے۔ 20 چونکہ میں ان موضوعات کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا اسی لئے میں نے اس بحث میں دخل اندازی کو غیر موزوں محسوس کیا۔ چونکہ میں نے اس سے پو چھا، “کیا تم یروشلم جانا چاہتے ہو تا کہ یہ مقدمہ وہاں چلا یا جاسکے؟ 21 پو لس نے کہا اس کو قیصریہ میں رکھنا چاہئے اور وہ شہنشاہ قیصر سے فیصلہ چاہتا ہے۔ اس لئے میں نے اس کے متعلق احکام دیئے جب تک اسے قیصر کے پاس نہ بھیجا جائے اس وقت تک اسے قیصر یہ کے جیل میں رہنا ہوگا۔”

22 اگرپا نے فیستس سے کہا، “میں بھی اس آدمی کو سننا چاہتا ہوں ۔” فیستس نے کہا، “تم اسے کل سن سکو گے۔”

23 دوسرے دن اگرپا اور برنیکے بڑی شان و شوکت اور فخر کے ساتھ کمرہ عدالت میں داخل ہو ئے اور ساتھ ہی پلٹن کے سردار اور قیصریہ کے ہم لوگ بھی کمرہ عدالت میں داخل ہو ئے فیستس نے سپا ہیوں کو حکم دیا کہ پو لس کو اندر لے آئے۔

24 فیستس نے کہا، “بادشاہ اگرپا اور تمام لوگ یہاں جمع ہیں۔ اس آدمی کو دیکھو۔ تمام یہودی یروشلم کے اور یہاں کے اس کے خلاف مجھ سے شکایت کی۔ جب وہ اس کے بارے میں شکایت کی تو چلا ئے کہ اس کا زیادہ دیر زندہ رہنا مناسب نہیں۔ 25 جب میں نے جانچ کی کچھ بھی غلطی محسوس نہ کرسکا۔ میں نے ایسا کوئی سبب نہیں دیکھا یہ صاف تھا کہ اس نے کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ قتل کی سزا کا مستحق ہو لیکن وہ چاہتا ہے کہ قیصر کو اسکا فیصلہ کر نا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے طے کیا ہے اس کو روم بھیجا جائے۔ 26 میں صحیح معنوں میں نہیں جانتا کہ قیصر کو کیا لکھوں، کہ اس شخص نے غلط کام کیا ہے۔ اسی لئے میں نے اسکو آپ سب کے سانے لایا ہوں خاص طور سے بادشاہ اگرّپا کے سامنے مجھے امید ہے اس چھان بین کے بعد قیصر کو لکھنے کے لئے کچھ نہ کچھ میرے پاس ہو گا۔ 27 کیوں کہ قیدی کے بھیجتے وقت ان الزاموں کو جو اس پر لگائے گئے ہوں ظا ہر نہ کر نا مجھے خلاف عقل معلوم ہو تا ہے۔”

Paul’s Trial Before Festus

25 Three days after arriving in the province, Festus(A) went up from Caesarea(B) to Jerusalem, where the chief priests and the Jewish leaders appeared before him and presented the charges against Paul.(C) They requested Festus, as a favor to them, to have Paul transferred to Jerusalem, for they were preparing an ambush to kill him along the way.(D) Festus answered, “Paul is being held(E) at Caesarea,(F) and I myself am going there soon. Let some of your leaders come with me, and if the man has done anything wrong, they can press charges against him there.”

After spending eight or ten days with them, Festus went down to Caesarea. The next day he convened the court(G) and ordered that Paul be brought before him.(H) When Paul came in, the Jews who had come down from Jerusalem stood around him. They brought many serious charges against him,(I) but they could not prove them.(J)

Then Paul made his defense: “I have done nothing wrong against the Jewish law or against the temple(K) or against Caesar.”

Festus, wishing to do the Jews a favor,(L) said to Paul, “Are you willing to go up to Jerusalem and stand trial before me there on these charges?”(M)

10 Paul answered: “I am now standing before Caesar’s court, where I ought to be tried. I have not done any wrong to the Jews,(N) as you yourself know very well. 11 If, however, I am guilty of doing anything deserving death, I do not refuse to die. But if the charges brought against me by these Jews are not true, no one has the right to hand me over to them. I appeal to Caesar!”(O)

12 After Festus had conferred with his council, he declared: “You have appealed to Caesar. To Caesar you will go!”

Festus Consults King Agrippa

13 A few days later King Agrippa and Bernice arrived at Caesarea(P) to pay their respects to Festus. 14 Since they were spending many days there, Festus discussed Paul’s case with the king. He said: “There is a man here whom Felix left as a prisoner.(Q) 15 When I went to Jerusalem, the chief priests and the elders of the Jews brought charges against him(R) and asked that he be condemned.

16 “I told them that it is not the Roman custom to hand over anyone before they have faced their accusers and have had an opportunity to defend themselves against the charges.(S) 17 When they came here with me, I did not delay the case, but convened the court the next day and ordered the man to be brought in.(T) 18 When his accusers got up to speak, they did not charge him with any of the crimes I had expected. 19 Instead, they had some points of dispute(U) with him about their own religion(V) and about a dead man named Jesus who Paul claimed was alive. 20 I was at a loss how to investigate such matters; so I asked if he would be willing to go to Jerusalem and stand trial there on these charges.(W) 21 But when Paul made his appeal to be held over for the Emperor’s decision, I ordered him held until I could send him to Caesar.”(X)

22 Then Agrippa said to Festus, “I would like to hear this man myself.”

He replied, “Tomorrow you will hear him.”(Y)

Paul Before Agrippa(Z)

23 The next day Agrippa and Bernice(AA) came with great pomp and entered the audience room with the high-ranking military officers and the prominent men of the city. At the command of Festus, Paul was brought in. 24 Festus said: “King Agrippa, and all who are present with us, you see this man! The whole Jewish community(AB) has petitioned me about him in Jerusalem and here in Caesarea, shouting that he ought not to live any longer.(AC) 25 I found he had done nothing deserving of death,(AD) but because he made his appeal to the Emperor(AE) I decided to send him to Rome. 26 But I have nothing definite to write to His Majesty about him. Therefore I have brought him before all of you, and especially before you, King Agrippa, so that as a result of this investigation I may have something to write. 27 For I think it is unreasonable to send a prisoner on to Rome without specifying the charges against him.”