Add parallel Print Page Options

یونتن کا فلسطینیوں پر حملہ

14 ایک دن ساؤل کا بیٹا یُونتن نو جوان آدمی سے جو اسکا ہتھیا ر لئے ہو ئے تھا بات کر رہا تھا۔ یونتن نے کہا ، “ہم لوگوں کو وادی کی دوسری طرف فلسطینیوں کے خیمہ میں چلنا چا ہئے۔” لیکن یونتن نے اس کے بارے میں اپنے باپ سے نہ کہا۔

ساؤل جبعہ کے نکاس پر مُجرون میں انار کے درخت کے نیچے بیٹھا تھا۔ یہ کھلیان کے قریب تھا۔ ساؤل کے ساتھ تقریباً ۶۰۰ آدمی تھے۔ ان لوگوں کے درمیان اخیاہ نامی آدمی تھا۔ وہ کا ہن کا چغہ پہنے تھا۔ اخیاہ یکبود کے بھا ئی اخیطوب کا بیٹا تھا۔ یکبود فینحاس کا بیٹا تھا۔ فینحاس عیلی کا بیٹا تھا۔ عیلی شیلاہ میں کا ہن تھا۔

ان لوگوں نے نہیں جانا کہ یوُنتن وہاں سے پہلے ہی نکل گیا ہے۔ پہا ڑی راستے کے ہر طرف جس سے ہو کر یونتن فلسطینی خیمہ میں جانے کا منصوبہ بنا یا تھا بڑی بڑی نکیلی چٹانیں تھیں نکیلی چٹان کا نام بوصیص تھا۔ دوسری طرف کی بڑی چٹان کا نام سنہ تھا۔ ایک چٹان کا رُ خ شمال کی طرف مکماس کی جانب تھا اور دوسری بڑی چٹان کا رُخ جنوب کی جبع کی جانب تھا۔

یونتن نے اس کے نوجوان مددگار سے کہا ، “جو اس کا ہتھیار لئے ہو ئے تھا۔ ” آؤ ! ہم اجنیوں کی فوجوں کے خیمہ کی طرف چلیں۔ ہو سکتا ہے خداوند ہمیں ان لوگوں کو شکست دینے میں مدد کریگا۔ کو ئی بھی چیز خداوند کو نہیں رو ک سکتی انلوگوں کو بچانے سے ، چا ہے ہم لوگوں کے پاس سپا ہی کم ہو ں یا زیادہ۔”

نوجوان آدمی جو یونتن کا ہتھیار لئے ہو ئے تھا اس نے کہا ، “جو آپ بہتر سمجھیں وہی کریں آپ جو بھی فیصلہ کریں میں اس میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔”

یونتن نے کہا ، “چلو ہم وادی کو پار کریں اور فلسطینی محافظین کے پاس جا ئیں۔ ہم انہیں اپنے آپ کو دیکھنے دیں گے۔ اگر وہ ہم سے کہتے ہیں ، ’ وہاں ٹھہرو جب تک ہم تمہا رے پاس نہ آئیں، ’تو ہم جہاں ہیں وہیں ٹھہریں گے۔ ہم اوپر ان لوگو ں تک نہیں جا ئیں گے۔ 10 لیکن اگر فلسطینی آدمی کہتے ہیں ، ’اوپر یہاں آ ؤ، ’ہم اوپر ان کے پاس کود پڑیں گے کیوں کہ وہ خدا کی طرف سے نشان ہو گا اس کے معنی ہوں گے خداوند نے ہمیں ان کو شکست دینے کی اجازت دی ہے۔”

11 اس لئے ان دونوں نے فلسطینیوں کو خیمہ میں اپنے آپ کو دکھا ئے۔ محافظین نے کہا ، “دیکھو ! عبرانی سوراخوں سے باہر آئے ہیں جس میں وہ چھپے ہو ئے تھے۔” 12 فلسطینیوں نے قلعہ میں یونتن اور اس کے مددگار کو پکا را “ یہاں اوپر آ ؤ ہم تم کو سبق سکھا ئیں گے۔”

یونتن نے اس کے مددگار کو کہا ، “میرے ساتھ پہا ڑی کے اوپر آؤ خداوند اسرا ئیل کو فلسطینیوں کو شکست دینے کے لئے موقع دے رہا ہے۔”

13-14 اس لئے یونتن اپنے ہا تھوں اور پیروں کے سہا رے اوپر پہا ڑی پر چڑھ گیا اس کا مدد گار اس کے پیچھے تھا۔ یونتن اور اس کے مددگار نے فلسطینیو ں پر حملہ کیا۔ پہلے حملے میں انہوں نے تقریباً ڈیڑھ ایکڑ کے رقبہ میں بیس فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔ یونتن نے فلسطینیو ں پر حملہ کیا اور انہیں گرادیا۔ اس کا مددگار اس کے پیچھے آیا اور ان کو ہلاک کیا۔

15 کھیت میں ، خیمہ میں اور سبھی سپا ہیوں میں خوف کی لہر پھیلی ہوئی تھی۔ حتیٰ کہ محافظ فوج اور چھا پہ مار سپا ہی بھی ڈرگئے تھے۔ زمین ہلنے لگی تھی ہر ایک آدمی خوفزدہ تھا۔

16 بنیمین کی زمین میں جبعہ میں ساؤل کے محافظین نے فلسطینیوں کو دیکھا کہ وہ ادھر اُدھر بھا گ رہے ہیں۔ 17 تب ساؤل نے اس فوج سے کہا ، “جو کہ اس کے ساتھی تھے آدمیوں کو گِنو میں جا ننا چا ہتا ہوں کہ کس نے چھا ؤنی چھو ڑا۔”

انہوں نے آدمیوں کو گنا۔ تب انہوں نے جانا کہ یونتن اور اس کا ہتھیار لے جانے وا لا پہلے ہی جا چکا ہے۔

18 ساؤل نے اخیاہ سے کہا ، “خدا کا مقدس صندوق لا ؤ۔” ( اس وقت خدا کا صندوق وہاں اسرا ئیلیوں کے پاس تھا۔) 19 ساؤل اخیاہ کاہن سے بات کر رہا تھا۔ ساؤ ل خدا کی جانب سے نصیحت کا منتظر تھا لیکن پریشانی اور شور فلسطینی خیمہ میں بڑھتا ہی جارہا تھا۔ ساؤل بے چین ہو رہا تھا۔ آ خرکار ساؤل نے کا ہن اخیاہ سے کہا ، “یہ کا فی ہے اپنے ہا تھ نیچے کرو اور دعا کرنا بند کرو۔”

20 ساؤ ل نے اس کی فوج کو اکٹھا کیا اورجنگ پر گیا۔ فلسطینی سپاہی حقیقت میں پریشان تھے وہ انکی ہی تلواروں سے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ 21 وہا ں وہ عبرانی تھے جنہوں نے ماضی میں فلسطینیوں کی خدمت کی تھی اور فلسطینی خیمہ میں ٹھہرے تھے۔ لیکن اب یہ عبرانی اسرا ئیلیوں میں ساؤل اور یونتن کے ساتھ مل گئے۔ 22 تمام اسرا ئیلی جو افرائیم کے پہا ڑی شہر میں چھپے تھے سنا کہ فلسطینی سپا ہی بھاگ رہے ہیں اس لئے یہ اسرا ئیلی بھی جنگ میں شریک ہو ئے اور فلسطینیوں کا پیچھا کرنا شروع کیا۔

23 اس لئے خداوند نے اس دن اسرا ئیلیوں کو بچا یا۔ جنگ بیت آون کے پار پہونچ گئی۔ پو ری فوج ساؤل کے ساتھ تھی اس کے پاس تقریبا ً ۰۰۰،۱۰ آدمی تھے۔ جنگ افرا ئیم کے پہا ڑی ملک سمیت ہر ایک شہر میں پھیل گئی۔

ساؤل کی دوسری غلطی

24 اُس دن ساؤل نے ایک بڑی غلطی کی۔ اس نے اپنے آدمیوں کو مجبور کیا کہ وہ عہد پرچلے۔ اس لئے اسرا ئیلی سپا ہی اس دن کمزوری اور پریشانی میں تھے کیونکہ ساؤل ان لوگوں کو اس عہد کے بندھن میں رکھا تھا کہ اگر کو ئی آدمی آج رات کے پہلے کچھ کھاتا ہے تو وہ ملعون ہو گا۔ پہلے میں اپنے دشمن سے بدلہ لینا چا ہتا ہوں۔ اس لئے کو ئی بھی اسرا ئیلی سپا ہی کھانا نہیں کھا یا۔

25-26 لڑا ئی ہو نے کی وجہ سے لوگ جنگلوں میں چلے گئے تب انہوں نے دیکھا کہ زمین پر شہد کا چھتّہ ہے۔ اسرا ئیلی شہد کے چھتّہ کے پاس گئے لیکن وہ اس کو کھا نہ سکے کیونکہ وہ عہد کو توڑنے سے ڈرتے تھے۔ 27 لیکن یونتن کو اس عہد کے متعلق معلوم نہ تھا۔ اس نے اپنے باپ کولوگو ں سے عہد کو پورا کرنے کے لئے مجبوراً وعدہ کراتے ہو ئے نہیں سنا تھا۔ یونتن کے ہا تھ میں ایک چھڑی تھی اس نے چھڑی کے سِرے سے اس شہد کے چھتّہ کو دبا دیا اور کچھ شہد نکالا اس نے کچھ شہد کھا یا اور اپنی طاقت کو دو بارہ حاصل کیا۔

28 سپا ہیوں میں سے ایک نے یونتن سے کہا ، “تمہا رے والد نے سپا ہیوں سے زبردستی عہد کیا ہے تمہا رے والد نے کہا ہے کو ئی بھی آدمی جو آج کھا ئیگا اسکو سزا ملے گی اس لئے آدمیوں نے کو ئی چیز نہیں کھا ئی اسی وجہ سے آدمی کمزور ہیں۔ ”

29 یونتن نے کہا ، “میرے والد نے سرزمین پربڑی تکلیفیں لا ئی ہیں۔ دیکھو میں شہد کو تھو ڑا سا چکھنے سے کس قدر بہتر محسوس کر رہا ہوں۔ 30 اگر لوگ دشمنوں کی لوٹ میں سے اتنا کھا تے جتنا کھانا چاہتے تھے تو وہ ان میں سے اور زیادہ لوگوں کو مارتے۔” 31 اس دن اسرا ئیلیوں سے فلسطینیوں کو شکست دی وہ ہر طرح سے ان سے مکماس سے ایالون تک لڑے۔ اس لئے لوگ بہت تھکے ہو ئے اور بھو کے تھے۔ 32 انہوں نے فلسطینیوں سے بکریاں ، گا ئے اور بچھڑے لئے تھے۔ اتنے بھو کے ہو نے کی وجہ سے لوگوں نے وہیں جانوروں کو ذبح کیا ، اور اسے کھا ئے۔ اور خون ابھی تک ان جانوروں میں ہی تھا ۔

33 ایک شخص نے ساؤل سے کہا ، “دیکھو لوگ خدا وند کے خلاف گناہ کر رہے ہیں وہ گوشت کھا رہے ہیں جس میں ابھی تک خون ہے۔”

ساؤل نے کہا ، “تم نے گناہ کئے ! اب یہاں پر ایک بڑے پتھر کو لُڑھکا ؤ۔” 34 تب ساؤل نے کہا ، “آدمیوں کے پاس جا ؤ اور ان سے کہو ہر آدمی میرے سامنے بکریوں اور بیلوں کو لا ئے اور اسے ذبح کرے اور اسے کھا ئے۔ لیکن اس گوشت کو کھا کر جس میں ابھی خون ہو خداوند کے خلاف گناہ مت کرو۔”

اس رات ہر شخص اپنا جانور لا یا اور اسے وہیں ذبح کیا گیا۔ 35 تب ساؤل نے ایک قربان گا ہ خداوند کے لئے بنا ئی۔ یہ پہلی قربانگاہ تھی۔ جسے اس نے خداوند کے لئے بنا ئی۔

36 ساؤل نے اپنے تمام لوگوں کو حکم دیا ، “آج رات ہم لوگ فلسطینیوں کا تعاقب کرینگے اور صبح اجالا ہو نے تک لوَ ٹیں گے ، تب پھر ان سبھوں کو مار دینگے۔”

فوج نے جواب دیا ، “جو آپ بہتر سمجھیں وہ کر سکتے ہیں۔”

لیکن کاہن نے کہا ، “یہ بہتر ہو گا کہ خدا سے پو چھ لیں،

37 اس لئے ساؤل نے خداوند سے پو چھا ،“ کیا مجھے فلسطینیوں کا تعاقب کرنا چا ہئے ؟ ” کیا تو ہمارے ذریعہ فلسطینیوں کو شکست دیگا۔ لیکن خدانے ساؤل کو کو ئی جواب نہ دیا۔

38 اس لئے ساؤل نے حکم دیا ، “تمام قائدین کو میرے پاس لا ؤ۔ ہمیں معلوم کرنے دو کہ وہ کیا گناہ ہے جس کی وجہ سے خدانے ہمیں جواب نہ دیا۔ 39 میں قسم سے کہتا ہوں( حلف ) خداوند کی کہ کون اسرا ئیل کو بچاتا ہے۔ حتیٰ کہ میرا بیٹا یونتن بھی اگر گناہ کرے گا تو اس کو مرنا ہو گا۔” لوگوں میں سے کسی نے بھی ایک لفظ نہ کہا۔

40 تب ساؤل نے تمام اسرا ئیلیوں سے کہا ، “تم اس طرف کھڑے رہو میں اور میرا بیٹا یونتن دوسری طرف کھڑے رہیں گے۔ ”

سپا ہیوں نے جواب دیا “ جیسی آپ کی مرضی جناب۔”

41 تب ساؤل نے دعا کی ، “خداوند اسرا ئیل کے خدا تو نے آج اپنے خادموں کو کیوں جواب نہیں دیا ؟ اگر میں یا میرا بیٹا یونتن نے گنا ہ کیا ہے توخداوند اسرا ئیل کے خدا اور یم دے۔ اگر تمہا رے بنی اسرائیلیوں نے گناہ کئے ہیں تو تمیم دے۔” ساؤل اور یونتن کو چن لیا گیا اور لوگ آزاد رہے تھے۔ 42 ساؤل نے کہا ، “ان کو دوبارہ پھینکو یہ بتانے کے لئے کہ کون قصور وار ہے میں یا میرا بیٹا یونتن۔” یونتن چنا گیا۔

43 ساؤ ل نے یونتن سے کہا ، “مجھے کہو تم نے کیا کیا ہے ؟ ”

یونتن نے جواب دیا ، “میں نے اپنی چھڑی کے سِرے سے تھو ڑا شہد چکھا ، میں یہاں ہوں اور مرنے کے لئے تیار ہوں۔”

44 ساؤل نے کہا ، “میں نے خدا سے قسم کھا ئی اور کہا کہ اگر میں قسم میں پو را نہ ہوا تو یونتن مر جا ئے۔”

45 لیکن سپا ہیوں نے ساؤل سے کہا ، “یونتن آج اسرا ئیل کے لئے عظیم فتح اور جلال لا یا ہے۔ کیا یونتن کو مرنا چا ہئے ؟ کبھی نہیں ، ہم خدا کی حیات کی قسم کھا تے ہیں کو ئی بھی یونتن کو نقصان نہ پہو نچا ئے گا۔ یونتن کے سر کا ایک بال بھی زمین پر نہ گریگا۔ خدا نے فلسطینیوں کے خلاف لڑنے میں اس کی مدد کی۔” اس طرح لوگوں نے یونتن کو بچا لیا اور وہ ما را نہیں گیا۔

46 ساؤل نے فلسطینیوں کا تعاقب نہیں کیا۔ فلسطینی واپس ان کی جگہ چلے گئے۔

اسرا ئیل کے دشمنوں سے ساؤل کی لڑ ا ئی

47 ساؤل نے مکمل اسرا ئیل پر قابو پا لیا۔ساؤل نے تمام دشمنوں سے لڑا جو اسرا ئیل کے اطراف رہتے تھے۔ ساؤل نے موآب ، عمونین ، ادوم ضوباہ کا بادشاہ اور فلسطینیوں سے لڑا۔ ساؤل نے اسرا ئیل کے دشمنوں کو جہاں بھی گیا شکست دی۔ 48 ساؤل بہت بہادر تھا اس نے عمالیقیوں کو شکست دی اور وہ اسرا ئیل کو دشمنوں سے بچا یا جو ان کو لوٹنے کی کو شش کر رہے تھے۔

49 ساؤل کے بیٹے یونتن اِسوی اور ملکیشوع تھے۔ ساؤل کی بڑی بیٹی کانام میرب تھا اور چھو ٹی لڑکی کانام میکل تھا۔ 50 ساؤل کی بیوی کانام اخینوعم تھا۔ اخینوعم اخیمعص کی بیٹی تھی۔

ساؤل کی فوج کے سپہ سالا ر کانام ابنیر تھا وہ نیر کا بیٹا۔ نیر ساؤل کا چچا تھا۔ 51 ساؤل کا باپ قیس تھا۔ اور نیر کا باپ ابنیر تھا۔ ابنیر کا باپ ابی ایل تھا۔

52 ساؤل کی پو ری دورِ حکومت میں فلسطینیو ں کے خلاف ہمیشہ گھمسان کی جنگ ہو تی تھی۔ جہاں کہیں بھی ساؤل نے اگر اچھا سپا ہی یا بہا در آدمی دیکھا تو اس نے اسے اپنے کام میں لے لیا۔

14 One day Jonathan son of Saul said to his young armor-bearer, “Come, let’s go over to the Philistine outpost on the other side.” But he did not tell his father.

Saul was staying(A) on the outskirts of Gibeah(B) under a pomegranate tree(C) in Migron.(D) With him were about six hundred men, among whom was Ahijah, who was wearing an ephod. He was a son of Ichabod’s(E) brother Ahitub(F) son of Phinehas, the son of Eli,(G) the Lord’s priest in Shiloh.(H) No one was aware that Jonathan had left.

On each side of the pass(I) that Jonathan intended to cross to reach the Philistine outpost was a cliff; one was called Bozez and the other Seneh. One cliff stood to the north toward Mikmash, the other to the south toward Geba.(J)

Jonathan said to his young armor-bearer, “Come, let’s go over to the outpost of those uncircumcised(K) men. Perhaps the Lord will act in our behalf. Nothing(L) can hinder the Lord from saving, whether by many(M) or by few.(N)

“Do all that you have in mind,” his armor-bearer said. “Go ahead; I am with you heart and soul.”

Jonathan said, “Come on, then; we will cross over toward them and let them see us. If they say to us, ‘Wait there until we come to you,’ we will stay where we are and not go up to them. 10 But if they say, ‘Come up to us,’ we will climb up, because that will be our sign(O) that the Lord has given them into our hands.(P)

11 So both of them showed themselves to the Philistine outpost. “Look!” said the Philistines. “The Hebrews(Q) are crawling out of the holes they were hiding(R) in.” 12 The men of the outpost shouted to Jonathan and his armor-bearer, “Come up to us and we’ll teach you a lesson.(S)

So Jonathan said to his armor-bearer, “Climb up after me; the Lord has given them into the hand(T) of Israel.”

13 Jonathan climbed up, using his hands and feet, with his armor-bearer right behind him. The Philistines fell before Jonathan, and his armor-bearer followed and killed behind him. 14 In that first attack Jonathan and his armor-bearer killed some twenty men in an area of about half an acre.

Israel Routs the Philistines

15 Then panic(U) struck the whole army—those in the camp and field, and those in the outposts and raiding(V) parties—and the ground shook. It was a panic sent by God.[a]

16 Saul’s lookouts(W) at Gibeah in Benjamin saw the army melting away in all directions. 17 Then Saul said to the men who were with him, “Muster the forces and see who has left us.” When they did, it was Jonathan and his armor-bearer who were not there.

18 Saul said to Ahijah, “Bring(X) the ark(Y) of God.” (At that time it was with the Israelites.)[b] 19 While Saul was talking to the priest, the tumult in the Philistine camp increased more and more. So Saul said to the priest,(Z) “Withdraw your hand.”

20 Then Saul and all his men assembled and went to the battle. They found the Philistines in total confusion, striking(AA) each other with their swords. 21 Those Hebrews who had previously been with the Philistines and had gone up with them to their camp went(AB) over to the Israelites who were with Saul and Jonathan. 22 When all the Israelites who had hidden(AC) in the hill country of Ephraim heard that the Philistines were on the run, they joined the battle in hot pursuit. 23 So on that day the Lord saved(AD) Israel, and the battle moved on beyond Beth Aven.(AE)

Jonathan Eats Honey

24 Now the Israelites were in distress that day, because Saul had bound the people under an oath,(AF) saying, “Cursed be anyone who eats food before evening comes, before I have avenged myself on my enemies!” So none of the troops tasted food.

25 The entire army entered the woods, and there was honey on the ground. 26 When they went into the woods, they saw the honey oozing out; yet no one put his hand to his mouth, because they feared the oath. 27 But Jonathan had not heard that his father had bound the people with the oath, so he reached out the end of the staff that was in his hand and dipped it into the honeycomb.(AG) He raised his hand to his mouth, and his eyes brightened.[c] 28 Then one of the soldiers told him, “Your father bound the army under a strict oath, saying, ‘Cursed be anyone who eats food today!’ That is why the men are faint.”

29 Jonathan said, “My father has made trouble(AH) for the country. See how my eyes brightened when I tasted a little of this honey. 30 How much better it would have been if the men had eaten today some of the plunder they took from their enemies. Would not the slaughter of the Philistines have been even greater?”

31 That day, after the Israelites had struck down the Philistines from Mikmash(AI) to Aijalon,(AJ) they were exhausted. 32 They pounced on the plunder(AK) and, taking sheep, cattle and calves, they butchered them on the ground and ate them, together with the blood.(AL) 33 Then someone said to Saul, “Look, the men are sinning against the Lord by eating meat that has blood(AM) in it.”

“You have broken faith,” he said. “Roll a large stone over here at once.” 34 Then he said, “Go out among the men and tell them, ‘Each of you bring me your cattle and sheep, and slaughter them here and eat them. Do not sin against the Lord by eating meat with blood still(AN) in it.’”

So everyone brought his ox that night and slaughtered it there. 35 Then Saul built an altar(AO) to the Lord; it was the first time he had done this.

36 Saul said, “Let us go down and pursue the Philistines by night and plunder them till dawn, and let us not leave one of them alive.”

“Do whatever seems best to you,” they replied.

But the priest said, “Let us inquire(AP) of God here.”

37 So Saul asked God, “Shall I go down and pursue the Philistines? Will you give them into Israel’s hand?” But God did not answer(AQ) him that day.

38 Saul therefore said, “Come here, all you who are leaders of the army, and let us find out what sin has been committed(AR) today. 39 As surely as the Lord who rescues Israel lives,(AS) even if the guilt lies with my son Jonathan,(AT) he must die.”(AU) But not one of them said a word.

40 Saul then said to all the Israelites, “You stand over there; I and Jonathan my son will stand over here.”

“Do what seems best to you,” they replied.

41 Then Saul prayed to the Lord, the God of Israel, “Why have you not answered your servant today? If the fault is in me or my son Jonathan, respond with Urim, but if the men of Israel are at fault,[d] respond with Thummim.” Jonathan and Saul were taken by lot, and the men were cleared. 42 Saul said, “Cast the lot(AV) between me and Jonathan my son.” And Jonathan was taken.

43 Then Saul said to Jonathan, “Tell me what you have done.”(AW)

So Jonathan told him, “I tasted a little honey(AX) with the end of my staff. And now I must die!”

44 Saul said, “May God deal with me, be it ever so severely,(AY) if you do not die, Jonathan.(AZ)

45 But the men said to Saul, “Should Jonathan die—he who has brought about this great deliverance in Israel? Never! As surely as the Lord lives, not a hair(BA) of his head will fall to the ground, for he did this today with God’s help.” So the men rescued(BB) Jonathan, and he was not put to death.

46 Then Saul stopped pursuing the Philistines, and they withdrew to their own land.

47 After Saul had assumed rule over Israel, he fought against their enemies on every side: Moab,(BC) the Ammonites,(BD) Edom,(BE) the kings[e] of Zobah,(BF) and the Philistines. Wherever he turned, he inflicted punishment on them.[f] 48 He fought valiantly and defeated the Amalekites,(BG) delivering Israel from the hands of those who had plundered them.

Saul’s Family

49 Saul’s sons were Jonathan, Ishvi and Malki-Shua.(BH) The name of his older daughter was Merab, and that of the younger was Michal.(BI) 50 His wife’s name was Ahinoam daughter of Ahimaaz. The name of the commander of Saul’s army was Abner(BJ) son of Ner, and Ner was Saul’s uncle.(BK) 51 Saul’s father Kish(BL) and Abner’s father Ner were sons of Abiel.

52 All the days of Saul there was bitter war with the Philistines, and whenever Saul saw a mighty or brave man, he took(BM) him into his service.

Footnotes

  1. 1 Samuel 14:15 Or a terrible panic
  2. 1 Samuel 14:18 Hebrew; Septuagint “Bring the ephod.” (At that time he wore the ephod before the Israelites.)
  3. 1 Samuel 14:27 Or his strength was renewed; similarly in verse 29
  4. 1 Samuel 14:41 Septuagint; Hebrew does not have “Why … at fault.
  5. 1 Samuel 14:47 Masoretic Text; Dead Sea Scrolls and Septuagint king
  6. 1 Samuel 14:47 Hebrew; Septuagint he was victorious