Add parallel Print Page Options

اپنی تباہی پر یروشلم کا واویلا

ایک وقت وہ تھا جب یروشلم [a] میں لوگو ں کا ہجوم تھا۔
    لیکن آج وہی شہر اجڑی پڑی ہوئی ہے۔
ایک وقت وہ تھا جب دوسرے شہروں کے درمیان یروشلم عظیم تھی
    لیکن آج وہ ایسی ہو گئی ہے جیسے کوئی بیوہ ہوتی ہے۔
وہ وقت تھا جب صوبوں کے بیچ وہ ایک ملکہ کی مانند نظر آتی تھی
    لیکن آج وہ غلام (باندی ) کی مانند ہے۔
رات میں وہ بری طرح روتی ہے
    اور اسکے آنسو رخساروں پر ہیں۔
اس کے پاس کوئی نہیں ہے جو اس کو تسلّی دے۔
    یہاں تک کہ اسکے دوست ملکوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کو تسکین دے۔
اس کے سبھی دوستوں نے اس سے منھ پھیر لیا۔
    اس کے دوست اسکے دشمن بن گئے۔
بہت مصیبت سہنے کے بعد یہوداہ اسیر ہو گئی۔
    بہت محنت کے بعد بھی یہوداہ دوسرے ملکوں کے بیچ رہتی ہے۔
لیکن اس نے آرام نہیں پا یا ہے۔
    جو لوگ اس کے پیچھے پڑتے ہیں
انہوں نے اس کو پکڑ لیا۔
    انہوں نے اس کو تنگ گھاٹیوں کے بیچ میں پکڑ لیا۔
صیّون کی راہیں بہت زیادہ دکھ سے بھری ہیں۔
    وہ بہت دکھی ہے، کیوں کہ اب تقریب کے موقع پر بھی کوئی شخص صیون نہیں جاتا ہے۔
صیون کے پھا ٹک فنا کر دیئے گئے ہیں۔
    صیون کے سب کاہن آہیں بھر تے ہیں۔
صیون کی سبھی جوان عورتیں اس سے چھین لی گئی ہیں
    اور ان ساری چیزوں کی وجہ سے صیون سخت تکلیف میں ہے۔
یروشلم کے دشمن کامیاب ہیں۔
    اس کے دشمن کامران ہو گئے ہیں۔
یہ سب اس لئے ہو گیا کیوں کہ خدا وند نے اس کو سزا دی۔
    اس نے یروشلم کے ان گنت گناہوں کے لئے اسے سزا دی۔
اس نے یروشلم کے ان گنت گناہوں کے لئے اسے سزا دی۔
    اس کی اولاد اسے چھوڑ گئی۔ وہ انکے دشمنوں کی اسیری میں آگئے۔
دختر صیّون کا حسن جاتا رہا ہے۔
    اس کی شہزادیاں غمزدہ ہرن کی مانند ہوئیں۔ وہ ایسی ہرن تھی جس کے پا س چرنے کو چراگاہ نہیں تھی۔
    بغیر کسی قوت کے وہ ادھر اُدھر بھاگتی ہے۔ وہ ان لوگوں سے بچتی ادھر ادھر پھر تی ہے جو اسکے پیچھے پڑے ہیں۔
یروشلم پچھلی بات سوچا کرتی ہے،
وہ اپنی مصیبت کے اور بھٹکنے کے دنوں کو یاد کرتی ہے۔
    اسے گزرے دنوں کے سکھ یاد آتے ہیں۔
وہ پرانے دنوں میں جواچھی اور نفیس چیزیں اسکے پاس تھیں اسے یاد آتی تھیں۔
    وہ اس وقت کو یاد کرتی ہے
جب اسکے لوگ دشمنوں کے ہاتھوں قید کئے گئے۔
    وہ اس وقت کو یاد کرتی ہے
جب اسے سہارا دینے کو کوئی بھی شخص نہیں تھا۔
    جب دشمن اسے دیکھتے تھے، وہ اسکی ہنسی اڑا تے تھے کیوں کہ وہ اجڑ چکی تھی۔
یروشلم نے ایسے خوفناک گناہ کئے تھے۔
    اس لئے وہ ایک برباد شہر بن گئی تھی
    جس پر لوگ اپنا سر جھٹکتے تھے۔
وہ سبھی لوگ جو اس کو تعظیم دیتے تھے،
    اب اس سے نفرت کرنے لگے۔
    وہ اسے حقیر سمجھنے لگے
کیوں کہ انہوں نے اس کے ننگا پن کو دیکھ لیا تھا۔
    وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی تھی اور اپنے آپ شرم میں ڈوب جاتی تھے۔
یروشلم کے کپڑے گندے تھے۔
    اس نے نہیں سوچا تھا کہ اس کے ساتھ کیا کچھ ہوگا۔
اس کا زوال عجیب تھا۔
    اس کے پاس کوئی نہیں تھا جو اس کو تسلی دیتا۔
وہ کہا کرتی ہے، “اے خدا وند، دیکھ میں کتنی غمگین ہوں!
    دیکھ میرا دشمن کیسا سوچ رہا ہے کہ وہ کتنا عظیم آدمی ہے!”

10 دشمن نے ہاتھ بڑھا یا
    اور اسکی سب نفیس چیزیں لوٹ لیں۔
در اصل اس نے دیکھا کہ غیر قومیں اس کے مقدس گھر میں داخل ہو رہے ہیں۔
    اے خدا وند یہ بات تو نے خود ہی کہی تھی کہ وہ لوگ تیری جماعت میں شا مل نہیں ہو سکیں گے۔
11 یروشلم کے سبھی لوگ کراہ رہے ہیں۔
    اس کے سبھی لوگ کھا نے کی کھوج میں ہیں۔
    وہ ایسا کرتے ہیں تاکہ انکی زندگی بنی رہے۔
یروشلم کہتا ہے، “دیکھ خدا وند، تو مجھ کو دیکھ!
    لوگ مجھ سے کیسے نفرت کرتے ہیں۔
12 راستہ سے ہوتے ہوئے جب تم سبھی لوگ میرے پاس سے گزرتے ہو تو ایسا لگتا ہے جیسے مجھ پر توجہ نہیں دیتے ہو۔
    لیکن مجھ پر نگاہ ڈالو اور ذرا دیکھو،
کیا کوئی ایسی مصیبت ہے جو مصیبت مجھ پر ہے؟
    کیا ایسا کوئی غم ہے جیسا غم مجھ پر پڑا ہے؟
کیا ایسی کوئی مشکل ہے جیسی مشکل سزا خدا وند نے مجھ کو دی ہے۔
    اس نے اپنے شدید غصہ کے دن مجھ کو سزا دی ہے۔
13 خدا وند نے اوپر سے آگ کو بھیج دیا
    اور وہ آگ میری ہڈیوں کے اندر اتری۔
اس نے میرے پیروں کے لئے ایک پھندہ پھینکا۔
    اس نے مجھے دوسرے رخ میں موڑ دیا ہے۔
اس نے مجھے ویران کر ڈا لا ہے۔
    سارا دن میں بیمار رہتی ہوں۔

14 “میرے گناہ مجھ پر جوئے کی مانند میرے کندھوں پر باندھے گئے۔
    خدا وند کے ہاتھوں سے میرے گناہ مجھ پر باندھے گئے۔
خدا وند کا جوا میرے کندھوں پر ہے۔
    خدا وند نے مجھے بہت کمزور بنا دیا۔
خدا وند نے مجھے ان لوگوں کو سونپا
    جنکا میں مقابلہ نہیں کر سکتی۔
15 “خدا وند نے میرے سبھی بہادروں کو نا چیز ٹھہرا یا۔
    وہ بہادر شہر کے اندر تھے۔
خدا وند نے میرے خلاف پھر ایک جماعت بھیجی،
    وہ میرے جوان سپاہیوں کو ہلاک کرنے کے لئے ان لوگوں کو لایا تھا۔
خدا وند نے یہوداہ کی کنواری بیٹی [b] کو گویا کولہو میں کچل ڈالا۔

16 ان سبھی باتوں کو لیکر میں پھوٹ پھوٹ کر روئی۔
    میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔
میرے پاس کوئی نہیں ہے جو مجھے تسلی دے۔
    میرے پاس کوئی نہیں ہے جو مجھے تسکین دے۔
میری اولادیں مفلس ہیں۔
    یہ سارے ایسے اس لئے ہو گئے کیوں کہ دشمن فاتح تھے۔”

17 صیّون اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں۔
    کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو اس کوتسلی دیتا۔
خدا وند نے یعقوب کے دشمنوں کو حکم ديا تھا۔
    خداوند نے انہيں شہر کو پوری طرح گھیر لینے کا حکم دیا تھا۔
یروشلم ان لوگوں کے لئے سخت نفرت انگیز ہو گئی تھی۔

18 یروشلم کہا کرتی ہے،
    “خدا وند صادق ہے، جیسا کہ انہوں نے میرے ساتھ کیا
کیوں کہ میں نے اسکی فرماں برداری نہیں کی۔
    اس لئے اے سبھی لوگو، سنو!
تم میرا درد دیکھو!
    میرے جوان آدمی اور عورتیں قیدی ہو گئے۔
19 میں نے اپنے چاہنے والوں کو پکارا۔
    لیکن وہ مجھے دغا دے گئے۔
میرے کاہن اور بزرگ شہر میں مر گئے۔
    وہ لوگ کھانے کے لئے بھیک مانگتے تھے تا کہ وہ زندہ رہ سکیں۔

20 “اے خدا وند! مجھے دیکھ میں غم میں مبتلا ہوں۔
    میں اندر سے غمزدہ ہوں۔
میں اپنے اندر اتھل پتھل بھی محسوس کرتا ہوں
    میرا دل ایسا محسوس کرتا ہے
کیوں کہ میں ضدی تھی۔
گلیوں میں میرے بچوں کو تلوار سے
    موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
گھروں کے اندر موت مقیم ہے۔

21 میری سن کیوں کہ میں کراہ رہی ہوں۔
    میرے پاس کوئی نہیں ہے جو مجھ کو تسلی دے۔
میرے سب دشمنوں نے میرے غموں کی بات سن لی ہے۔
    وہ بہت مسرور ہیں۔
وہ بہت ہی شادمان ہیں کیوں کہ تو نے میرے ساتھ ایسا کیا ہے۔
    اب اس دن کو لے آ جس کا تو نے اعلان کیا تھا۔
اس دن تو میرے دشمنوں کو ویسا ہی بنا دے
    جیسی اب میں ہوں۔

22 “دیکھ! میرے دشمن کتنے برے ہیں۔
    تم انکے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو جیسا تم نے میرے سارے گناہوں کی وجہ سے میرے ساتھ سلوک کیا۔
تم ایسا کروگے کیوں کہ میں بار بار کراہ رہا ہوں۔
    میں اپنے دل میں پژ مردگی محسوس کرتا ہوں۔”

Footnotes

  1. نوحہ 1:1 یروشلم اس پو رے نظم میں شاعر نے یروشلم شہر کو ایک خاتون کے طور پر پیش کیا ہے۔
  2. نوحہ 1:15 کنواری بیٹی شہر یروشلم کا ایک اور نام۔