Add parallel Print Page Options

پو لس کا روم بھیجا جانا

27 یہ طے کیا گیا ہم بذریعہ جہاز اطالیہ جائیں گے یولیس نامی فوجی افسر جو انچارج تھا پو لس کی اور دوسرے قیدیوں کی نگرانی کر تا رہا۔یولیس حکمران فوج میں خدمت انجام دے چکا تھا۔ ایک جہاز جو ادرتئیم سے آیا تھا اور ایشیاء کے مختلف ملکوں کے بندرگاہوں کو جا نے کے لئے تیار تھا۔ ہم اس جہاز میں سوار ہو گئے۔ ارسترخس بھی ہمارے ساتھ تھا تھسلنیکے اور مکدنیہ سے آیا تھا۔

دوسرے روز ہم شہر صیدا میں آئے۔ یولیس پو لس پر مہربان تھا اس نے پولس کو دوستوں کو دیکھنے کی آزادی دی تو دوستوں نے اسکی خاطر تواضع کی۔ ہم صیدا سے روانہ ہو ئے اور جزیرہ کُپرس کے قریب پہونچے ہم کپرس کے جنوبی سمت سے بڑھے کیوں کہ ہوا مخالف تھی۔ ہم کلیکیہ اور پمفیلیہ سے ہو کر سمندر کے پار گئے اور لوکیہ کے شہر مورہ میں اترے۔ مورہ میں فوجی افسر نے ایک جہاز پا یا جو اسکندریہ سے اطالیہ جانے والا تھا اس نے ہمیں اس جہاز میں سوار کر دیا۔

ہم آہستہ آہستہ اس جہاز سے کئی دن تک سفر کرتے رہے کیوں کہ ہوا مخالف تھی۔ مشکل سے کندُس پہنچے۔ چونکہ مزید آگے نہ بڑھ سکے تھے۔ ہم جنوبی ساحل سے ہو تے ہو ئے سلمونی کے قریب جزیرہ کریت پہنچے۔ اور بمشکل اس کے کنارے کنارے چلکر حسین بندر گاہ نامی ایک مقام میں پہنچے، جہاں سے لسائیہ شہر نزدیک تھا۔

لیکن ہم نے بہت سا وقت ضائع کیا اور اس وقت جہا ز سے چلنا خطرہ سے خالی نہ تھا۔ کیوں کہ یہودیوں کے روزہ کا دن گذر چکا تھا اس لئے پو لس نے انہیں انتباہ دیا۔ 10 “اے لوگو! مجھے معلوم ہو تا ہے کہ اس سفر میں ہمیں تکلیف اور نقصا ن ہے نہ صرف جہاز کا اور سامان کا بلکہ ہما ری زندگیوں کا بھی نقصان ہو گا۔” 11 مگر جہا ز کے کپتان اور مالک جہا ز نے پولس کی باتوں سے اتفاق نہیں کیا اور فوجی سردار نے بھی پولس کی باتوں کو بنسبت کپتان اور مالک جہا ز کی بات پر توجہ دی۔ 12 اور چونکہ وہ بندرگاہ جا ڑوں کے موسم میں جہا ز کے ٹھہر نے کے لئے محفوظ جگہ نہ تھی۔ اسی لئے لوگوں کی اکثریت نے طئے کیا کہ جہا ز کو چھوڑ دیا جائے اور فلکیس میں پہنچ کر جا ڑا وہیں گذار دیں۔ فلکیس ایک شہر تھا جو جزیرہ کریتے پر واقع تھا۔ وہاں پر بندرگاہ تھی جس کا رخ جنوب مشرق اور شمال مشرق میں تھا۔

طوفان

13 جب جنوبی ہوا چلنی شروع ہو ئی تو جہا ز کے لوگوں نے خیال کیا “جو ہم چا ہتے ہیں ویسا ہی ہوا اور یہ ہمیں مل گئی۔”جہا ز کا لنگر اٹھا یا اورجزیرہ کریتے کے کنارے کنارے چلنے لگے۔ 14 لیکن تھو ڑی دیر میں طوفانی ہوا جو “یورکلوں۔” کہلا تی ہے اس پار سے آئی۔ 15 جب جہاز تیز ہوا کی زد میں آیا تو جہا ز ہچکو لے کھا نے لگا اور ہوا کے بر خلاف آگے بڑھ نہیں پا رہاتھا اور لا کھ کوشش کے باوجود اسے قابو نہیں کیا جا سکا۔ آخر کار لا چار ہو کر جہاز کو ہوا اور موجوں پر بہنے کے لئے چھوڑ دیا۔

16 ہم بہتے بہتے کودہ نامی ایک چھو ٹے جزیرہ کی طرف پہنچے اور بڑی جد وجہد کے بعد ڈونگی( بچا ؤ کشتی) کو قابو میں لا ئے۔ 17 ڈونگی جہا ز پر لا نے کے بعد اسے جہا ز کے ساتھ رسیوں سے مضبوطی سے باندھا انہیں ڈرتھا کہ کہیں سورتس کی ریت میں جہا ز دھنس نہ جا ئے اور اس ڈر سے جہا ز کا سازو سامان اتار نا شروع کیا اور جہاز کو ہوا پر چھوڑ دیا۔

18 دوسرے دن طوفانی ہوا شدید تھی انہو ں نے کچھ چیزوں کو جہاز کے با ہر پھینکنا شروع کیا۔ 19 تیسرے دن اپنے ہی ہا تھوں جہا ز کے آلا ت اور اسباب بھی پھینکنے لگے۔ 20 کئی دنوں تک سورج تا رے دکھا ئی نہیں دیئے کیوں کہ شدید آندھی چل رہی تھی بچنے کی تمام امیدیں ختم ہو چکیں تھیں۔

21 لوگوں نے کئی روز سے کچھ نہیں کھایا تب پو لس ان کے سامنے ایک دن کھڑا ہو گیا اور کہا، “معزز حضرات میں نے تم سے کہا تھا کریتے سے مت نکلو تم نے میرا کہا نہ مانا۔ اگر مانتے تو یہ تکلیف اور نقصان نہ اٹھا تے۔ 22 لیکن اب میں تم سے کہتا ہوں کہ خوش ہو جا ؤکیوں کہ تم میں سے کو ئی نہیں مریگا صرف جہا زکا نقصان ہوگا۔ 23 گذشتہ رات کو خدا کے جانب سے ایک فرشتہ میرے پاس آیا وہ خدا جس کی میں عبادت کرتا ہوں میں اس کا ہوں۔ 24 خدا کے فرشتہ نے کہا، “اے پولس ڈرومت تمہیں قیصر کے سامنے حاضر ہو نا چاہئے تمام لوگوں کو جو تیرے ساتھ جہاز میں سوار ہیں بچا لئے جائیں گے۔ 25 تو اے لوگو! خوش ہو جا ؤ میں خدا پر بھروسہ کرتا ہوں اور ہر چیز اسی طرح پوری ہوگی جیسا کہ اس کے فرشتہ نے مجھ سے کہا۔” 26 لیکن ہمیں جزیرہ پر حادثہ کا سامنا کرنا پڑیگا۔”

27 چودھویں رات جب ہما را جہازبحر ادریہ کے اطراف چل رہا تھا توملاحوں نے سمجھا کہ ہم کسی زمین سے قریب ہیں۔ 28 انہو ں نے پانی میں رسہ پھینکا جس کے سرے پر وزن تھا اس سے انہوں نے معلوم کیا کہ پانی ۱۲۰ فیٹ گہرا ہے وہ تھو ڑا اور آگے بڑھے اور دوبارہ رسہ پھینکا تو معلوم ہوا کہ پانی ۹۰ فیٹ گہرا ہے۔ 29 ملا حوں کو ڈرتھا کہ کہیں جہاز چٹانوں سے نہ ٹکرا جا ئے اس لئے جہاز کے پیچھے سے پانی میں چا ر لنگر ڈال دیئے اور صبح ہو نے کی دعا شروع کردی۔ 30 کچھ ملاح جہاز کو چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتے تھے انہوں نے بچا ؤکشتیوں کو نیچے کرنا شروع کیا تا کہ وہ جہاز کے سامنے سے لنگر ڈالنا شروع کر سکتے ہیں۔ 31 لیکن پولس نے فوجی سردار اور سپاہیوں سے کہا، “اگر یہ لوگ جہاز میں نہ ٹھہریں تو تمہا ری زندگیاں نہیں بچا ئی جا سکتیں۔” 32 اسی لئے سپا ہیوں نے رسیوں کو کاٹ دیا اور بچاؤ کشتیاں پانی میں گر پڑیں۔

33 مختصر دن نکلنے سے پہلے پولس نے ہر ایک کو تھوڑا کچھ کھا لینے کے لئے کہا، “تم لوگ گذشتہ چودہ دن سے انتظار کرتے رہے ہو اور تم فاقہ کررہے ہو کچھ نہیں کھایا۔ 34 میں تم سے تقاضہ کرتا ہوں کچھ تو کھا لو یہ تمہا رے زندہ رہنے کیلئے ضروری ہے اور تم میں سے کسی کا ایک بال بیکا بھی نہ ہوگا۔” 35 اتنا کہنے کے بعدپولس نے تھوڑی روٹی لی اور سب کے سامنے خدا کا شکر ادا کیا تب وہ روٹی توڑ کرکھانا شروع کیا۔ 36 تب سب لوگوں کی ہمت بندھی اور وہ بھی کھا نا شروع کئے۔ 37 کل ملا کر جہازپر۲۷۶ آدمی تھے۔ 38 جب سیر ہو کر کھا چکے تب انہوں نے طئے کیا کہ جہا ز کے وزن کو کم کیا جائے اور غلہ کو پانی میں پھینکنا شروع کیا۔

جہاز کا ٹوٹنا

39 جب صبح ہو ئی تو ملا حوں نے زمین کو دیکھا لیکن وہ پہچان نہ سکے لیکن ایک کھا ڑی جس کا کنارہ صاف تھانظر آیا اور ملاح اس ساحل پر ممکن ہوا توجہاز کو لنگر انداز کر نا چا ہا۔ 40 انہوں نے لنگر کی رسیاں کا ٹ ڈالیں اور لنگر کو سمندر میں چھوڑ دیا۔اور ساتھ ہی پتوار کی رسیوں کو بھی کھو ل دیا اور جہاز کو ہواکے رخ پر چھوڑ دیا۔ 41 لیکن جہاز ریت سے ٹکرا گیا اور جہاز کا اگلا حصہ پھنس گیا اور جہاز آگے نہ بڑھ سکا اور بڑی بڑی موجوں نے جہاز کے پچھلے حصہ کو متاثر کیا اور وہ ٹوٹ کر ٹکڑے ہو گیا۔

42 سپا ہیوں نے طئے کیا کہ قیدیوں کو ما ر ڈالیں تا کہ کوئی قیدی تیر کر بھا گ نہ جائے۔ 43 لیکن فوجی سردار پولس کی زندگی بچا نا چاہتا تھا اس لئے اس نے سپا ہیوں کو ان کے منصوبہ پر عمل کر نے کی اجا زت نہیں دی۔ اور لوگوں سے کہا کہ جو تیر سکتے ہیں وہ کود کر کنارے پر پہونچ جائیں۔ 44 دوسروں نے جہازکے ٹکڑے اور تختوں کا سہا را لے لیا اس طرح تمام آدمی کنا رے پر پہونچ گئے اور ان میں سے کو ئی بھی نہ مرا۔